ہم مسئلے کو جس طرح دیکھتے ہیں، وہی مسئلہ ھے
۲۰۱۵ میں ایک مغربی خاتون صحافی دھشت گردی کی جنگ پر خبر کرنے پاکستانی آئیں – گفتگو کے دوران وہ کہنے لگیں کہ میں پاکستان پہلی دفع آئی ہوں- میرا پاکستان کے بارے میں تصوّر یہ تھا کہ ہر طور آگ اور دھماکے ہو رھے ھونگے – لیکن یہاں تو صورت حال بالکل الٹ ھے-زندگی معمول سے بھی زیادہ معمول لگ رھی ھے- میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے مرد گھورتے تو ہمارے ہاں بھی ہیں- لیکن یہاں گھورتے ایسے ہیں کہ ساتھ ہی چپک جاتے ہیں- میں نے فورا موضوع بدلا اور گفتگو کو موسموں کی تبدیلی کی طرف لے گیا-
میرے ایک رشتہ دار کا جرمنی سے فون آیا، پوچھ رہا تھا بجلی ابھی بھی جاتی ھے پاکستان میں- میں تھوڑا سا ہنسا اور بات کو گول مول کر نے کرنے کے لئے بس ایسے ہی بتایا کہ ڈسکوز میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا– کہنے لگا ، یار ڈسکوز ادھر بھی بہت تنگ کرتے ہیں- یہ کبھی ٹھیک نہیں ھونگے- میں نے ایک بار پھر ہلکا ساقہقہ لگایا اور گفتگو کا رخ موڑا – اس نے حسب حال یورپ کی رنگینیوں کی کہانیاں اور قصیدے شروع کر دیئے- داد دینے کے علاوہ میرا پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا-
یہ کمیونیکیشین گیپ کی چند ایک چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں-
یہ آپ سب کے داتھ بھی ھوتا ہو گا، کسی دوست یا رشتے دار کا بیرون ملک سے فون آ جائے تو پہلا سوال یہی ہیں کہ ” یار پاکستان کا کیا بنے گا؟”-
یہ اس لئے ھے کہ بیرون ملک ، اور یہاں بیٹھے لوگ پاکستان کو یا تو ٹی وی سکرین یا موبائل سکرین پر دیکھتے ہیں اور وہاں پاکستان کو ایسا ہی دکھایا جاتا ھے-
مورگن ھوزل، اپنی کتاب ” psychology of money” میں لکھتے ہیں کہ معیشیت میں خرابی فوری نظر آ جاتی ھے- اسی لئے ملکی معیشیت ہمیشہ تنقید کی زد میں رھتی ھے، لیکن بہتری کسی کو نظر نہیں آتی کیونکہ معاشی بہتری کا عمل تھوڑا آہستہ ھوتا ھے-
"حقیقت پسندی” fact fulness ایک اور بہت دلچسپ کےاب ھے جو ان جبلّتوں کے بارے میںہے جو دنیا کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر کو مسخ کرتی ہیں – انسان نے اپنے ہی اندازے ہوتے ہیں – ہم چیزوں کو ” ہم اور تم” کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں- مذھب، ذات ، برادری، پیشہ، سیاست سب بٹا ہوا ھے- اپنے والا بہتر لگتا ھے اور دوسرے والا بہت خراب-
انسانی دماغ منفی چیزوں، حادثات، خوف دلانے والی چیزوں کو فورا نوٹ کرتا ھے- اچھائی یا سکون عموما نظر نہیں آتے-
آپ کسی خاتون سے اس کے پورے خاندان کے ہر فرد کی تاریخ پیدائش پوچھ لیں یاد ھو گی- علامہ اقبال کب پیدا ھوئے اس کا علم نہیں ہو گا- کسی مرد سے نور جہاں کی کوئی غزل سن لیں ، فر فر آتی ھو گی- لیکن قیام پاکستان کی الف ب بھی نہیں پتا ھو گی-
ہمیں خواہ مخواہ چیزوں کو بگاڑ کر دیکھنے کی عادت ھے اور میڈیا اور سوشل میڈیا ہمیں وہی دکھاتا ھے- معمولات زندگی کیونکہ رواں دواں ہیں اس لئے انسانی عقل دیکھ نہیں پا رہی-