مقبوضہ کشمیر میں ہندو بھی آزادی کی مسلح جدوجہد میں شامل !
22دسمبر 2021 کو انٹر نیٹ پے ایک ہندی زبان میں نیوز ویب سائٹ پر نشر ہونے والی خبر کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام کے چک گوجرہ میں بھارتی فوج نے تلاشی کے دوران دو کشمیریوں کو اسلحہ سمیت گرفتار کر لیا۔ بھارتی فوج نے اسے بہت بڑی کامیابی قرار دیا لیکن تحقیق کرنے پر جیسے ہی احساس ہوا کہ گرفتار کیے گئے دونوں افراد کشمیری نہیں بلکہ بھارت سے تعلق رکھنے والے ہندو ہیں تو بھارتی فوج نے معاملے کو دبا دیا ۔ یہ دونوں ہندو گزشتہ 2برسوں سے کشمیری حریت پسندوں کے ایک گروہ میں شامل ہو کر بھارتی فوج اور ریاستی پولیس پر حملوں کے علاوہ ہندو تاجروں سے لوٹ مار میں بھی ملوث پائے گئے تھے۔ دونوں کے پاس مقبوضہ کشمیر کے جعلی شناختی کارڈ بھی موجود تھے۔ ایک نے نعیم ڈار اور دوسرے نے اشرف بھاٹ کا نام اختیار کر رکھاتھا۔ انہی جعلی شناختی کارڈوں کی بنیاد پر بھارتی فوج نے دونوں کی گرفتاری کے وقت ان کا تعلق لشکر طیبہ سے جوڑنے میں دیر نہیں لگائی ۔ لیکن دونوں کی اصل شناخت سامنے آنے کے بعد بڈگام کے چک گوجرہ سے دو افراد کی گرفتاری کی خبر سے لاعملی کا اظہار کردیا تاکہ عالمی سطح پر ایسے کسی تاثر کو روکا جاسکے کہ اب بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں صرف کشمیری ہی ناجائز قابض بھارتی فوج و سیکورٹی اداروں کے خلاف برسر پیکار نہیں بلکہ بھارت کے ہندو بھی ا ن کا مسلح جدوجہد میں ساتھ دے رہے ہیں ۔ ویسے بھی یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کے حوالے سے کسی ہندو کی گرفتاری عمل میں آئی ہو۔ 2017 میںبھی مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں کشمیری حریت پسندوں کے ساتھ مقابلے کے بعدپکڑے گئے ایک ہندو کی خبر نے پورے بھارت کے میڈیا میں طوفان برپا کردیا تھااور عالمی میڈیا میں بھی اس خبر کو خاصی اہمیت دی گئی تھی۔
یکم جولائی 2017کو بھارتی سیکورٹی فورسز نے ضلع انت ناگ کے ایک گھر کو گھیرے میں لے کر آپریشن کا آغاز کیا تو یہ مقابلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا ۔ مزاحمت ختم ہونے پر بھارتی فوج گھر میں داخل ہوئی تو وہاں ایک مسلح شخص مردہ حالت میں موجود تھا۔ بھارتی فوج نے اسے لشکر طیبہ کے کمانڈر بشیر لشکری کے طور پر شناخت کیا۔ لیکن مقامی سطح پر اسے کسی کشمیری نے بشیر لشکری کے طور پر شناخت نہیں کیا۔ کیونکہ مقبوضہ کمشیر میں بھارتی فوج کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ پہلے سے گرفتار کشمیری نوجوانوں کی کسی ویران گھر میں پھینکنے کے بعد اس گھر کا اس انداز سے محاصرہ کرتی ہے کہ جیسے اندر مقابلے کے لیے درجنوں افراد موجود ہوں۔ پھر ڈرامائی انداز سے کئی گھنٹوں تک اندھا دھند فائرنگ کے بعد اندر سے جعلی مقابلے میں قتل کئے گئے کشمیری نوجوانوں کو لشکر طیبہ کے دہشت گرد کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کردیا جاتا اوراپنی اس بہادر پر بھارت سرکار سے انعام و ایوارڈ الگ سے وصول کیے جاتے پھر چند روز بعد انکشاف ہوتا کہ جس کشمیر ی حریت کمانڈر کی لاش پر انعام وصول کیا گیا وہ زندہ ہے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے بھارتی فوج پر حملہ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس گھر کو آپریشن کیلئے نشانہ بنایا جاتا وہ تباہ حال گھر طویل عرصہ تک ویران ہی پڑرہتا کیونکہ گھر کی تعمیر نویا مرمت گھر کے مالکان کیلئے فوری طور پرناممکن ہوتا علاوہ ازیں بھارتی فوج بھی یہ ذمہ داری پوری کرنے سے انکاری ہوجاتی ۔ جس کے بعد اکثر ویران گھر جرائم پیشہ افراد کی اماجگاہ بن جاتے۔ جولائی 2017میں بھی یہی کچھ ہوا۔ یکم جولائی کو وہاں جعلی مقابلے کے بعد ویران گھر کے بارے میں ناجائز قابض بھارتی فوج کو طلاع ملی کہ مذکورہ گھر جہاں یکم جولائی کو مقابلہ ہواتھا اس گھر میں پراسرار لوگوں کی آمدورفت جاری ہے۔ 10جولائی 2017کو بھارتی سیکورٹی فورسز نے اس گھر سے عادل نام کے ایک کشمیری کو خود کار ائفل اور فالتو رائونڈز کے ساتھ گرفتار کرلیا۔ گرفتاری کے بعد انکشاف ہوا کہ وہ نہ توکشمیری ہے نہ ہی مسلمان بلکہ ریاست اتر پردیش کے شہر مظفرنگر کا رہائشی سندیپ کمار شرما ہے جو 2021میں ویلڈر کے طور پر روز گار کے سلسلے مں مقبوضہ کشمیر میں آکر آباد ہوا۔ کلگام میں سکونت اختیار کر کے ایک ویلڈنگ کی دوکان پر ملازم ہوگیا ۔ وہیں اس کا رابطہ بھارتی فوج کے مطابق لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے والے حریت پسندوں کے ساتھ ہوا۔
ابتدا میں سندیپ شرما ، کشمیری حیریت پسندوں کی مالی معاونت کیلئے ڈکتیاں کرتا ۔ ATM سے پیسا نکالتا اور ساتھ ہی ویلڈنگ کا کام اس انداز سے جاری رکھتا کہ کوئی سوچ بھی نہ سکے کہ محنت مزدوری کرنے والا نوجوان جس نے مسلمان کا نام اور روپ اختیار کررکھا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے کشمیری حریت پسندوہ کا دست و بازو بنا ہواہے ۔ تفتیش کے دوران سندیپ شرما نے انکشاف کیا کہ وہ ماضی میں مختلف مواقع پر ریاستی پولیس اور بھارتی فوج پر کامیاب حملے کر چکا ہے ۔ اس کی تازہ کاروائی 16جون 2017کو اچابھل کے علاقے میں پولیس پارٹی پر حملہ تھی جس میں علاقے کے تھانے کا انچارج ایس ایچ او اپنے 5ساتھی پولیس والوں کے ہمراہ مارے گئے تھے۔ اس طرح منڈا میں فوج کی پٹرولنگ پارٹی پر حملہ کر کے ایک بھارتی فوجی کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا ۔ اتر پردیش کے ہندو نوجوان سندیپ شرما کی بطور کشمیری حریت پسند گرفتاری بھارتی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کیلئے انتہائی اہم خبر تھی۔جس کے بعد نریندر مودی اور اس کی حکومت کی مقبوضہ کشمیر میں پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھارت کے ہندو نوجوانوں میں کشمیریوں کیلئے ہمدردی کے جذبات کا سبب بن رہے ہیںاور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہندونوجوان کشمیریوں کی مدد کیلئے اپنی ہی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہیں ۔ بھارتی فوج کے مقبوضہ کشمیر و لداخ میں 14ویں کو ر کا حصہ رہنے والے ریٹائرڈ جرنیلوں نے مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی کیلئے ہندو نوجوان کے ہاتھ میںبندوق کو بھارت کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا اور بھارت سرکار سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر کشمیری حریت قیادت کے ساتھ ڈائیلاگ کا آغاز کرے ۔ اس کے برعکس بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بیان جاری کیا کہ پھانسی کا پھندہ سندیپ شرما کا مقدر ہے۔ مطلب یہ تھا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانیت سوز مظالم اور ناجائز قابض بھارتی فوج جنگی جرائم کے ارتکاب کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ یہی وہ بھارتی حکمت علمی ہے جس نے اگست 2019میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو 80لاکھ کشمیریوں کی جیل میںبدلنے کا اہتمام کیا۔
بھارت کے اس اقدام کو 27اکتوبر 1947کو ریاست جموں کشمیر میں فوج داخل کیے جانے کی طرز کا جارحیت پر مبنی عمل قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگامگر شاید بھارت کواحساس نہیںکہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو برقرار رکھنے کے چکر میں اس نے اپنی مزید 15ریاستوں کو آزادی کیلئے بندوق اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ بھارت کا خیال تھا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کو امریکہ کی سرپرستی میں بھارت میں ضم کر کے کشمیریوں کے حق خواد روایت کا قتل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا تو گزشتہ 2برسوں میں مقبوضہ کشمیر میں مسلح مزاحمت کے واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ بھارت اپنے مقصد میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ بندو بھی کشمیری حریت پسندوں کے ساتھ بندوق اٹھا کر ناجائز قابض بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور میں بڈگام میں پکڑے گئے کشمیری حریت پسندو ں کے ساتھی 2مسلح بھارتی ہندو شہریوں کی گرفتاری کی خبر سے انکار سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ کشمیریوں کو مقبوضہ وادی میںاقلیت میں بدلنے کے چکر میں بھارت سے مقبوضہ وادی میں منتقل کیے گئے ہندو بھی آہستہ آہستہ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں جبر اور اتنی بڑی آبادی کو قیدی بناکر رکھنے کے طریقہ کار سے بغاوت پر مجبور ہورہے ہیں۔