سی پیک سے متعلق معلومات اور ’نوائے وقت

روزنامہ ’نوائے وقت‘ لاہورکے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز لیفٹیننٹ کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری (تمغۂ امتیاز) سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات ایڈیٹوریل انچارج سعید آسی صاحب کے توسط سے 2019ء میں انکے دفتر میں ہوئی۔ آسی صاحب ایڈیٹوریل لکھنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ بغیر اطلاع دیئے میں انکے دفتر پہنچ گیا تاکہ منیجنگ ڈائریکٹر محترمہ رمیزہ نظامی صاحبہ سے ملاقات ہو سکے۔ اپنی اس خواہش کا اظہار جب آسی صاحب سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ میڈم اپنی بعض مصروفیات کی بنا پر آج دفتر تشریف نہیں لائیں البتہ کرنل قادری صاحب دفتر میں موجود ہیں۔ میں نے قادری صاحب سے ملنے کی ہاں کر دی۔ آسی صاحب نے کرنل صاحب کو اطلاع دی اور انہوں نے کمال محبت کا ثبوت دیتے ہوئے مجھے اور آسی صاحب کو دفتر بلوالیا۔ اپنے دفتر میں گرمجوشی سے استقبال کرنے کے بعد انہوں نے اچھی خاصی تواضع کرڈالی۔ 

ملکی سیاست‘ برطانوی صحافت‘ دنیا کے بدلتے اخباری حالات اور جرنلزم کے شعبہ میں شدت سے بڑھتی بے روزگاری سمیت ہم نے عالمی حالات حاضرہ پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے میرے کالموں کی تعریف کی۔ کرنل صاحب کی عسکری حوالہ سے گفتگو ایسی تھی کہ جی چاہ رہا تھا کہ یہ سلسلہ جاری رہے مگر مجھے محترم آسی صاحب کی ذمہ داری کا بھی احساس تھا کہ انہوں نے ابھی ایڈیٹوریل لکھنے اور کاپی کی ڈیڈلائن کے امور کو بھی حتمی شکل دینا تھی اس لئے میں نے کرنل صاحب سے اجازت لینا چاہی۔ وہ مسکرائے اور ساتھ ہی انہوں نے میرے لئے نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں سلسلہ وار شائع ہونیوالی اپنی قدیم شاہراہ ریشم سے جنم لینے والی بیلٹ اینڈ روڈ کی پیش قدمی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری پر لکھی اپنی اقساط کی خوبصورت کاپیاں بطور گفٹ پیش کر دیں۔ خوبصورت ترین میگزین میں شاہراہ ریشم کے حوالے سے کی گئی انکی یہ غیرمعمولی تحقیق نئی نسل کیلئے ہی نہیں‘ سی ایس ایس کرنے اور سیاحت میں دلچسپی رکھنے والے غیرملکی شائقین کیلئے بھی بلاشبہ معلومات کا خزانہ تھی۔ چنانچہ میں نے انکی تمام اقساط پڑھنے کا وعدہ کرتے ہوئے ان سے اجازت لے لی۔ میرا خیال تھا کہ اپنے اس تحقیقی سلسلہ کو بڑھاتے ہوئے چھ یا 7 اقساط میں وہ بیلٹ اینڈ روڈ سے سی پیک کا احاطہ کرلیں گے مگر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب انکی 32ویں قسط مجھ تک پہنچی‘ حسنِ اتفاق سے اپنی کتاب ’ولایت نامہ‘ کی تقریب رونمائی کے سلسلہ میں چند روز کیلئے مجھے لاہور آنا پڑا۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کا یہ حسنِ ظن کہ کتاب کی رونمائی کیلئے انہوں نے گورنر ہائوس کا ’دربار ہال ‘ منتخب کیا۔ جن 60 معزز شخصیات نے میری حوصلہ افزائی کی‘ ان میں کرنل صاحب بھی شامل تھے۔ قادری صاحب نے مسکراہٹوں میں ہی سوال کر دیا کہ ابھی تک شائع ہونیوالی میں انکی کتنی اقساط پڑھ پایا ہوں‘ تب میں نے ان سے دوبارہ وعدہ کرلیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا ایک وعدہ اپنے محترم قیوم نظامی صاحب سے بھی کر چکا ہوں مگر اگلے روز کرنل قادری صاحب اور انکی لکھی اقساط میں معاونت کے فرائض ادا کرنیوالے سینئر صحافی خاور سندھو صاحب کے بارے میں یہ خبر پڑھی کہ پاک چین دوستی کے حوالے سے عوامی جمہوریہ چین کے قونصلیٹ جنرل کے زیر اہتمام لاہور میں منعقدہ خصوصی تقریب میں انہیں ’فرینڈ شپ ایوارڈ‘ برائے 2021ء سے نوازا گیا ہے تو کرنل صاحب سے کیا وعدہ فوراً یاد آگیا۔ انہیں ملنے والا یہ ایوارڈ بلاشبہ نوائے وقت کے تمام کارکنوں‘ صحافیوں‘ کالم نگاروں‘ ایڈیٹوریل اور ایڈمن سٹاف کیلئے بھی ایک بڑا اعزاز ہے جس کا تمام تر کریڈٹ نوائے وقت گروپ کی منیجنگ ڈائریکٹر محترمہ رمیزہ مجید نظامی صاحبہ کو جاتا ہے۔ اس بارے میں چینی سفیر عزت مآب جناب نونگ رونگ نے نوائے وقت کی خدمات اور پاک چین مثالی دوستی کی کوریج کو بھی خصوصی طور پر سراہا۔

کرنل قادری صاحب کی اب تک شائع ہونیوالی 32 قسطوں کا اگر عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے تو ایک بات صاف عیاں ہے کہ بحیثیت سابق فوجی آفیسر تحقیق کا جس طرح انہوں نے آغاز کیا‘ وہ آسان معرکہ نہیںتھا۔ پاک چین مثالی دوستی میں اس طرح حصہ ڈالنا اور اقتصادی راہداری میں دونوں ممالک کی قربانیوں اور حصولِ معلومات کیلئے تاریخ کی ورق گردانی کرنے کے بعد تمام تاریخی واقعات کو یکجا کرکے کمٹمنٹ میں ڈالنا اور بھی مشکل کام تھا جو انہوں نے کر دکھایا۔ شاہراہ ریشم سے شروع ہونیوالی بیلٹ اینڈروڈ اور پھر آگے سی پیک کے تاریخی منصوبے کیلئے کرنل صاحب کو یقیناً مزید مراحل طے کرنے ہونگے کیونکہ عظیم شاہراہ ریشم کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ یہ شاہراہ عظیم دوسری صدی قبل ازمسیح معرض وجود میں آئی۔ اسی طرح بیلٹ اینڈ روڈ کی پیش قدمی بحیرہ روم میں اب خاص اہمیت کی حامل ہے اور یہی وہ بنیادی مقام ہے جس سے بحیرہ روم کے ساحل سے تین براعظم شامل ہوتے ہی ان براعظموں کے 22 ممالک مل جاتے ہیں۔ اسی طرح 21ویں صدی کا یہی وہ بنیادی روٹ ہے جس سے پاکستان کی بندرگاہ گوادر سمیت دیگر معروف بندرگاہوں سے نقل و حمل اور تجارت کے وسیع تر سلسلے کا آغاز ہونیوالا ہے۔ یاد رہے کہ یورپی سیاح مارکو پولو نے بھی 1254-1324ء تک انہی آبی راستوں سے سفر کیا تھا۔ 

مصر میں بھی متعدد بار جا چکا ہوں۔ یہاں کی 48 بندرگاہوں میں سے مچھلی پکڑنے کی 6 بندرگاہوں سمیت مصر کی سب سے قدیم بندرگاہ الیگزینڈریا جسے اسکندریہ بھی کہتے ہیں‘ بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں۔ اوپر سکندریہ شہر اور نیچے ماریٹ جھیل کے درمیان دریائے نیل کے مغربی کنارے پر یہ اہم ترین بندرگاہ 160 مربع کلو میٹر سے زائد تک پھیلی ہوئی ہے‘ یہی وہ جگہ ہے جہاں چین نیا ٹرمینل تعمیر کر رہا ہے۔ ٹرمینل کی تعمیر سے مصر اور چین کی تجارت اور دیگر ممالک کی تجارت میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ اسکندریہ بندرگاہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ 331 قبل ازمسیح سکندراعظم کی سربراہی میں اسکی فوج نے یہاں بحری اڈہ بنانے میں غیرمعمولی اقدامات کئے جبکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی بحری افواج نے یہاں مہماتی مشقیں کیں۔ مگر آج وقت تبدیل ہو چکا ہے۔ پاکستان اور چین کی لازوال دوستی دنیا کے کسی ملک میں آج قطعی ڈھکی چھپی نہیں‘ البتہ پاکستان اور چین کے مضبوط سٹرٹیجک اتحاد سے امریکہ اور بعض یورپی ممالک ضرور پریشان ہیں۔ 

پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبہ کی تکمیل سے جہاں جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے متعدد ممالک میں خوشحالی کی راہیں کھلیں گی وہیں پاک چین مثالی تعلقات آئندہ آنیوالی تاریخ کا حصہ بن جائیں گی۔ سرمایہ کاری سے پیدا ہونیوالی خوشحالی اور اقتصادی استحکام سے پاک چین کی لازوال دوستی کا آنیوالی نسلیں بھی اقرار کریں گی۔