سیاسی ھیجان

تحریرعتیق الرحمان

مغرب کا بہت واضح فرق ھماری معاشرت کا جوائنٹ فیملی سسٹم ھے۔ مغرب میں بالغ ھوتے ہی بچے ماں سے علیحدہ رھنا شروع ھو جاتے ہیں- ھمارے ھاں یہ رواج بہت عجیب سمجھا جاتا ھے کہ بچے والدین کے گھر سے رخصت ھو کر علیحدہ رھنا شروع کر دیں ۔ اسی جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایک بہو ایسی بھی آ جاتی ھے کہ جو پورے گھر کو سنبھالتی ھے۔ صبح سے شام تک گھر کا پورا انتظام، صفائی، کچن، کپڑے، بچے ، ھوم ورک اور پھر رات کو شوھر کی ڈانٹ کہ تم مجھے وقت نھی دیتی اور اگلے دن صبح وھی روٹین ۔ کام بھی اور گھر والوں کی باتیں بھی۔ لیکن اس سب کے باوجود، کسی کو کبھی اس کے ھونے کا احساس تک نھی ھوتا۔ ھاں البتہ ایک دن وہ اچانک بیمار ھو جائے یا میکے جانا پڑ جائے تو گھر کا سارا کاروبار رک جاتا ھے۔ یھی حال پاکستان کا ھوا ھوا ھے آج کل۔ کیونکہ فوج نیوٹرل ھو گئی ھے۔
ملک کا وزیر اعظم ، وزیر داخلہ، سب سے بڑی پارٹیوں کے صدور ، وزرائے اعلی عدالتوں میں اپنے خلاف کیس لڑتے پھر رھے ہیں، حال ھی میں فارغ ھونے والے انقلابی وزیر اعظم پہلے دوسرے صوبے میں گرفتاری کے خوف سے چھپ کر بیٹھ گئے اور اب بنی گالہ آ گئے ہیں، ملک کی معاشی پالیسیاں ائ ایم ایف چلا رھا ھے، عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رھے ہیں، سیاست ہیجان کا شکار ھے، ریٹائرڈ فوجی سیاسی گروپ بننے کے چکروں میں ھیں۔ صحافت اور سوشل میڈیا گڈمڈ ھوچکے ہیں، سی پیک تقریبا رکا ھوا ھے۔ وجہ یہ ھے کہ فوج صرف نیوٹرل ھوئی ھے- ان کو اندازہ ھی نھی کہ فوج کا پاکستان میں کیا کردار ھے۔ ھماری حکومتوں اور سیاست کا فوج پر اتنا انحصار ھے کہ وہ خود سے کوئی کام کرنے کی سکت ھی نھی رکھتے۔ یہ نھی کہ کر نھی سکتے لیکن یہ ضرور ھے کہ کرنے کی عادت نھی رھی۔ اب اس کی بہت سی وجوھات ہیں ، اس کا تجزیہ کرنے کے لئے علیحدہ وقت درکار ھے۔ ھاں ایک بڑی وجہ طویل عرصے تک فوجی حکمرانی ھے۔
کولڈ وار کے خاتمہ ھوا تو سیکورٹی کے نظریے کی توسیع کے بعد حکومتوں کے لئے ملٹری سے نمٹنے والے خطرات کے علاوہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی میدان میں بھی خطرات نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ ھمارے ھاں بد قسمتی سے صرف ملٹری سے نمٹے جانےوالے خطرات کو ھی خطرات سمجھا گیا – سیاسی میدان میں صرف نواز شریف، بینظیر، زرداری ، الطاف حسین ھی بر سر پیکار نظر آئے۔ سیاسی پارٹیوں نے موروثی حیثیت حاصل کر لی اور سیاست صرف شخصی فیصلوں تک محدود رھی۔ سیاست کے سکڑنے سے سیاسی ادارہ جسے پارلیمنٹ کہتے ہیں اس کا کردار نہ ھونے کے برابر رھ گیا۔ سیاست کی اس روش سے معیشت اور معاشرت کو بہت نقصان پہنچا۔ فوج نے بحیثت ادارہ اپنا دفاعی کردار بہت احسن طریقے سے انجام دیا اور اج بھی کر رھی ھے لیکن اس سارے عمل میں کسی کو پتا ھی نھی چلا کہ کہ فوج گورننس کا سب سے اھم حصہ بن گئی۔ موجودہ آرمی چیف نے جب ادارے کے سیاسی کردار کو ختم کرنے کی کوشش کی تو بعض سیاسی جماعتوں سمیت ، ریٹائرڈ فوجی افسران نے بھی اس کو غیر معمولی کام سمجھا- اور یہ افراتفری اسی فیصلے کا نتیجہ ھے۔
اس کے باوجود کہ پاکستان چاروں طرف سے خطرے میں گرا ھوا ھے، وطن عزیز کا دفاعی حصار اللہ تعالی کے فضل سے بہت مضبوط ھے۔ بیرونی دباؤ سے ھماری معیشت پر گہرے وار کئے جا رھے ہیں جو کہ بلواسطہ ھماری معاشرت پر اثر انداز ھو رھے ہیں اور معاشرہ سیاسی لییڈرز اور فوجی قیادت سے نالاں نظر آتا ھے۔
اس سارے کھیل میں افواہ سازی، گروھی ، لسانی اور مزھبی تقسیم کو بھارت اور سوشل میڈیا مل کر ھوا دے رھے ہیں۔ مہنگائی اور گرمی سے ستائی ھوئی قوم ان وجوھات کو سمجھنے سے قاصر ھے جو کہ بالکل عمومی رویہ ھے۔
اب اس سے نکلنا کیسے ھے۔ قدرتی طور پر جیسے جیسے سیاسی ادارے مضبوط ھونگے، ویسے ویسے ھمارے مسائل کم ھونگے۔ پش اور پل ( push & pull) کی سیاست کے ختم ھوتے ہی ایک حقیقی معنوں میں نیا پاکستان ابھر کر سامنے آۓ گا۔ فوج کے موجودہ کردار کے بارے میں ھمارے اندازے اور چہ مگوئیاں بالکل درست نھیں۔ آپ دیکھیں گے کہ تاریخ فوج کے اس کردار کو یاد رکھے گی۔
اگر ھم جزبات کی رو میں بہنے کی بجائے تھوڑا ریلکس کر لیں اور جن کا کام ھے انھیں کرنے دیں تو یقین مانیں ھم سے بہتر کوئی ملک روئے زمین پر نھی ھو گا۔ مغرب نے بھلے بہت ترقی کر لی ھو لیکن ھمارے جیسے نہ تو مضبوط اعصاب ہیں ان کے اور نہ ھی اتنے بلند حوصلے۔ ھم تو آگ سے بھی خوشی خوشی گزر جانے والی قوم ہیں یہ پٹرول اور آئ ایم ایف کیا ھے- سیاست چل نکلی تو معیشت اور معاشرت خود بخود پیچھے پیچھے آئے گی-