سیاست اور تالاب کی لہریں
تحریر: حسن شاہد
اج سے بیس پچیس سال پہلے دیہاتوں ، قصبوں اور چھوٹے شہروں میں تالاب بہت ھوتے تھے۔ اور عموما تالاب کے کنارے بہت بڑا درخت بھی ھوتا تھا۔ اب تو تالابوں اور وسیع میدانوں میں کالونیاں بن گئی ہیں۔ میں نے جس پرائمری سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی وہ بالکل تالاب کے ساتھ تھا صرف درمیان میں ایک سڑک حائل تھی۔ تفریح ( recess) جسے ھم آدھی چھٹی کے نام سے بھی پکارتے تھے، کے وقت ھم تالاب پر جا کر اپنی تختی ، تالاب کے پانی سے دھو کر اس پر نئ گاچی کا لیپ کرتے تاکہ اگلی لکھائی کے لئے تختی تیار ملے۔ تختی کے جنجھٹ سے نمٹنے کے بعد ھم تالاب کے کنارے کھڑے ھو کر پانی میں پتھر پھینکتے اور جہاں پتھر گرتا وہاں سے پھر تالاب میں بننے والی لہروں کا نظارہ کرتے۔ سکول کے سارے بچوں کا یہ محبوب مشغلا تھا۔ تالاب کا پانی کھڑا ھوتا ھے ، اس میں ھلکا سا پتھر بھی ارتعاش پیدا کرتا ھے۔ اگر پتھر تھوڑا بڑا ھو تو لہر نسبتا چند گز بڑی بنتی۔
دریا یا سمندر کے پانی میں پتھروں سے لہر یں نہیں بنتی۔ دریا میں پانی ساکت نھی ھوتا ، پانی کا ریلہ بہتارہتا ھے ، اس ریلے کی رفتار دریا کی تیزی یا سستی کا پتا دیتی ھے۔ سمندر میں لہریں نہیں موجیں ھوتی ہیں، جو سمندر کی مرضی یا موسم کے تابع ھوتی ہیں۔ یہ موجیں پتھروں کی مرھون منت نہیں ھوتی۔
پاکستانی سیاست تالاب کی مانند ھے ، جہاں ھلکے سے پتھرسے بھی ایسی لہریں پیدا ھوتی کہ سمندر کا گمان ھوتا ھے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے بڑے اور مضبوط سیاسی اور معاشی نظام والے ممالک میں چھوٹے موٹے پتھروں سے لہریں نھی پیدا ھوتی۔ بڑے ملک ہیں ان کی ترجیحات بھی بڑی ہیں۔ ھم تو بس پتھروں سے پیدا ھونے والی موجوں کے ساتھ وقت ضائع کرنے کے عادی ہیں۔ ھمیں حالات کا ادراک ھی نھی ھوتا کہ پاکستان کے مسائل کتنے گھمبیر ہیں۔
اگر آپ بھولے نھی تو ایک سکندر نامی شخص نے ۲۰۱۳ میں ایک ریوالور کی مدد سے اپنی بیوی اور بچے کو یرغمال بنا کر بالواسطہ 6 گھنٹے تک اسلام آباد اور پورے ملک کو یرغمال بنائے رکھا۔ وہ تو بھلا ھو راولپنڈی کے بہادر سپوت زمرد خاں کا جنہوں نے انتہائی ڈرامائی انداز میں سکندر کو قابو کیا ورنہ سکندر اس ڈرامے کو اور طول دے سکتا تھا۔
لندن سے الطاف حسین کی دو گھنٹے طویل لائیو پریس کانفرنس کا تو میں خود گواہ ھوں۔ الطاف حسین صاحب نے چھوٹے اور بڑے پتھر دائیں رکھے ھوتے تھے۔ کون سا پتھر استعمال کرنا ھے یہ وہ موقع محل کی مناسبت سے فیصلہ کرتے تھے۔
مولانا طاھر القادری صاحب اور مولانا فضل الرحمان ھمیشہ بڑے پتھر لے کر کارواں کی قیادت کرتے ہیں ، لیکن مفاد عامہ کی خاطر کبھی پتھر پھینکا نھی کہ مبادا لہریں باھر نہ نکل جائیں۔ موجودہ حالات بھی اسی طرز کی لہروں کی لپیٹ میں ہیں۔ ھلکا سا ارتعاش ، پھر سکون اور پھر ارتعاش۔
ھم تالاب تو تبدیل کرنے سے رھے، ظاھر ھے تالاب رھے گا تو پتھر بھی آئیں گے۔ پتھر پھینکنے سے لہریں بھی بنیں گی۔ لیکن یہ لہریں معمول کی لہریں ہیں ، ان کو غور سے نہ دیکھیں یہ چند لمحوں میں ختم ھو جائیںگی۔ان پر اپنی ذھانت اور ریسرچ کی توانائیاں نہ خرچ کریں۔ شاید ھی کوئی صحافی ، دانشور یا سیاستدان ھو جس نے اس معاملے میں حسب جسہ فال نہ نکالی ھو۔ واقع بڑا ھو یا چھوٹا اس کا تعین تجزیہ کرنے والے پر بھی منحصر ھوتا ھے -زیادہ تر تجزیہ کرنے والے اپنے اندر برپا تلاطم کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔
زیادہ تر سیاستدان اور تجزیہ نگار جو ووٹ کو عزت دینے کی جدوجہد میں مصروف تھے، فورا کلٹی مار کر ووٹ کو عزت کی مخالفت میں آ کھڑے ھوئے ہیں۔ ان کی منطق یہ ھے کہ یہ وہ والے ووٹ نھی ھیں جن کی ھم بات کر رھے تھے۔ وہ تو ووٹ ھی علیحدہ ہیں اور دور سے نظر آجاتے ہیں۔ اب کم از کم ووٹ کی عزت والا نعرہ تھوڑی دیر کے لئے شاید موقوف ھو جائے۔-
بلاول اور زرداری صاحب کی اچانک آمد اور میڈیا کے لوگوں سے ملاقات بے مقصد تو نھی۔ یا شاید وہی تالاب کی لہریں ہیں۔ نون لیگ کی کوشش ھے کہ اگلے الیکشن کے وقت انھیں سیاسی میدان خالی میدان ملے اور غالبا اس کوشش میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔
شوکت ترین کو سینیٹر بنا کر وزیر بنانے کی خبر عندیہ ھے کہ حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نھیں۔ اور نہ ھی فی الحال اپوزیشن یا پی ڈی ایم ان حالات میں حکومت کرنا چاھتے ہیں۔ معیشت اور عالمی حالات دونوں حکومت کرنے والے نھی ۔ اپوزیشن فی الحال صرف تالاب میں لہریں بنائے گی۔ لیکن بزنس as usual چلے گا اور پی ٹی آئی میرے اندازے کے مطابق اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔
ان حالات کا تقاضاھے کہ اب جب سیاسی حالات بہتری کا عندیہ دے رھے ہیں تو بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لئےتمام سیاسی قوتیں مل کر کردار ادا کریں اور پاکستان کی سالمیت اور عوام کی خوش حالی کے لئے بھی کچھ لہریں بنائیں۔