تبدیلی کے ماخذ
معاشرے کی سوچ اور رہن سہن میں تبدیلی کا سب سے بڑا ماخذ ،صنعتی ترقی اور اس سے جڑا political economy کا ماڈل ہے- انٹر نیٹ کے ساتھ جڑے اسی پولیٹیکل معیشیت کے ماڈل نے یکسر سب کچھ بدل دیا ھے-ھانڈی روٹی پکانے کے مختلف طریقے بتا کر لاکھوں ڈالر کمائے جا رھے ہیں –
ریاستوں، گروہوں اور افراد کی کہانیوں میں روپے کی کہانی کا مرکزی کردار ہے- یہ کہانی دنیا کی اب تک کی سب سے موثر اور سب سے زیادہ پسند کی جانے والی کہانی- روپے کی کہانی کو انسان رنگ و نسل، لسانیت، مذھبی تفریق سے اونچا ہو کر دیکھتا ھے-
ہمیں دوسروں کی کہانیوں میں انتہاء کی دلچسپی رہتی ہے ، حالانکہ دوسروں کی کہانیاں، ہو بہو وہی ہیں جو ہماری اپنی ھے-شخصی انقلاب کے لئے اپنی کتاب زندگی کا مطالعہ بہت اہم ھے- یہی کہانی ، اصل کہانی ہے جو کہ معاشروں اور ریاستوں کی کہانی بن جاتی ہے – عالمی سیاست میں بھی انہیں کہانیوں کی گونج سنائی دیتی ھے-
دنیا کا سب سے بڑا اور مختصر ترین فلسفہ نیوٹن کا تیسرا قانون حرکت ھے- یہ بھلے فزکس کا قانون ہے لیکن یہی فلسفہ حیات ھے – ” ہر عمل کا ردّ عمل ہے”-
ہم شخصی اور گروہی ترقی کے تمام منصوبوں کو unilateral approach کے تحت آگے لے کر چلتے ہیں اور صرف "ایکشن” اور فوری نتیجے کو ذہن میں رکھتے ہیں – دورس انجام ذہن میں نہیں رکھتے – موسمیاتی تغیر ، پانی، خوراک کا بحران ، ہمارے ترقی کے جنون کا دورس نتیجہ ھے-
سٹیفن آر کووی کی کتاب ” پر اثر انسانوں کی سات عادات ” میں ایک اہم عادت یہ ھے کہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے انجام ذہن میں رکھیں-
پاکستانی حکومتوں کے IPPs کے ساتھ بجلی کے معاھدے دورس نتائج ذہن میں نہ رکھنے کی وجہ سے پوری معیشیت کو لے ڈوبے –
اکیسویں صدی کا سب سے اہم مسئلہ ریاست کی کمزور ہوتی writ ہے اور اس کی وجہ یہ ھے کہ طاقت کے مراکز بڑھ گئے ہیں – اور ہم سب ان چھوٹے چھوٹے مراکز میں محصور ہو کر نا معلوم اھداف کی جدوجہد کر رہے ہیں-
جب طاقت کے مراکز بڑھ جائیں تو تعاون کی بجائے ، ان کا رخ ایک دوسرے کی طرف ہو جاتا ہے- یہ تقسیم ہوئے مراکز باہر سے آنے والے خطرے کا ادراک نہیں کر سکتے-
طرز حکومت کوئی بھی ہو, حکمران اور عوام ایک دوسرے کی ضد ہی رہیں گے- ہر نظام میں ایک انتظامیہ ہوتی ہے جو وسائل کی تقسیم کرتی اور دوسرے صارف- یہ دو گروپ نہیں دو مائنڈ سیٹ ہیں- آپ ان دونوں گروپوں کے فرائض ادل بدل کر دیں ، دونوں کی سوچ فورا تبدیل ہو جائے گی- دنیا کے ہر نظام کی یہی تشکیل ہوتی ہے- حکمرانی کرنے والے قانون کا سہارا لیتے ہیں- عوام انسانی حقوق اور بنیادی سہولیات مانگتے ہیں –
جن معاشروں میں ان دونوں گروپوں کی کارکردگی اور مانگ میں توازن پیدا ہو جائے وہ کامیاب ہو جاتا ہے – ان دو گروپوں کے درمیان ایک اور گروپ ہے "سیٹھ”
” آڑھتی” جس نے وسائل کے وسیع حصے پر قبضہ کر رکھاہے جس کی وجہ سے دوسرے دونوں گروپ آپس میں گتھم گتھا ہیں اور حکمرانی میں مشکلات پیش آ رھی ہیں – یہ تیسرا گروپ جو کہ دنیا کی کل آبادی کا ایک فیصد ہے ان کے پاس دنیا کی آدھی دولت