تالا ب اور لہریں
تحریر؛ عتیق الرحمان
اج سے بیس پچیس سال پہلے دیہاتوں ، قصبوں اور چھوٹے شہروں میں تالاب بہت ہوتے تھے۔ اور عموما تالاب کے کنارے بہت بڑا درخت بھی ہوتا تھا۔ اب تو تالابوں اور وسیع میدانوں میں کالونیاں بن گئی ہیں۔ میں نے جس پرائمری سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی وہ بالکل تالاب کے ساتھ تھا صرف درمیان میں ایک سڑک حائل تھی۔ تفریح ( recess) جسے ھم آدھی چھٹی کے نام سے بھی پکارتے تھے، کے وقت ہم تالاب پر جا کر اپنی تختی ، تالاب کے پانی سے دھو کر اس پر نئ گاچی کا لیپ کرتے تاکہ اگلی لکھائی کے لئے تختی تیار ملے۔ تختی کے جنجھٹ سے نمٹنے کے بعد ہم تالاب کے کنارے کھڑے ہو کر پانی میں پتھر پھینکتے اور جہاں پتھر گرتا وہاں سے پھر تالاب میں بننے والی لہروں کا نظارہ کرتے۔ سکول کے سارے بچوں کا یہ محبوب مشغلا تھا۔ تالاب کا پانی کھڑا ہوتا ہے ، اس میں ہلکا سا پتھر بھی ارتعاش پیدا کرتا ھے۔ اگر پتھر تھوڑا بڑا ھو تو لہر نسبتا چند گز بڑی بنتی۔
دریا یا سمندر کے پانی میں پتھروں سے لہر یں نہیں بنتی۔ دریا میں پانی ساکت نہیں ہوتا ، پانی کا ریلہ بہتارہتا ہے ، اس ریلے کی رفتار دریا کی تیزی یا سستی کا پتا دیتی ہے۔ سمندر میں لہریں نہیں موجیں ہوتی ہیں، جو سمندر کی مرضی یا موسم کے تابع ہوتی ہیں۔ یہ موجیں پتھروں کی مرہون منت نہیں ہوتی۔
پاکستانی سیاست تالاب کی مانند ھے ، جہاں ہلکے سے پتھرسے بھی ایسی لہریں پیدا ہوتی کہ سمندر کا گمان ہوتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے بڑے اور مضبوط سیاسی اور معاشی نظام والے ممالک میں چھوٹے موٹے پتھروں سے لہریں نہیں پیدا ہوتی۔ بڑے ملک ہیں ان کی ترجیحات بھی بڑی ہیں۔ ہم تو بس پتھروں سے پیدا ہونے والی موجوں کے ساتھ وقت ضائع کرنے کے عادی ہیں۔ ہمیں حالات کا ادراک ہی نہیں ہوتا کہ پاکستان کے مسائل کتنے گھمبیر ہیں۔
اگر آپ بھولے نہں تو ایک سکندر نامی شخص نے ۲۰۱۳ میں ایک ریوالور کی مدد سے اپنی بیوی اور بچے کو یرغمال بنا کر بالواسطہ 6 گھنٹے تک اسلام آباد اور پورے ملک کو یرغمال بنائے رکھا۔ وہ تو بھلا ہو راولپنڈی کے بہادر سپوت زمرد خاں کا جنہوں نے انتہائی ڈرامائی انداز میں سکندر کو قابو کیا ورنہ سکندر اس ڈرامے کو اور طول دے سکتا تھا۔
لندن سے الطاف حسین کی دو گھنٹے طویل لائیو پریس کانفرنس کےتو ہم سب گواہ ہیں۔ الطاف حسین صاحب نے چھوٹے اور بڑے پتھر دائیں رکھے ہوتے تھے۔ کون سا پتھر استعمال کرنا ہے یہ وہ موقع محل کی مناسبت سے فیصلہ کرتے تھے۔
مولانا طاھر القادری صاحب اور مولانا فضل الرحمان ہمیشہ بڑے پتھر لے کر کارواں کی قیادت کرتے ہیں ، لیکن مفاد عامہ کی خاطر کبھی پتھر پھینکا نہیں کہ مبادا لہریں باہر نہ نکل جائیں۔
موجودہ حالات بھی اسی طرز کی لہروں کی لپیٹ میں ہیں۔ ہلکا سا ارتعاش ، پھر سکون اور پھر ارتعاش۔
ہم تالاب تو تبدیل کرنے سے رہے، ظاہر ہے تالاب رہے گا تو پتھر بھی آئیں گے۔ پتھر پھینکنے سے لہریں بھی بنیں گی۔ لیکن یہ لہریں معمول کی لہریں ہیں ، ان کو غور سے نہ دیکھیں یہ چند لمحوں میں ختم ہو جائیںگی۔ان پر اپنی ذہانت اور ریسرچ کی توانائیاں نہ خرچ کریں۔ شاید ہی کوئی صحافی ، دانشور یا سیاستدان ہو جس نے اس معاملے میں حسب جسہ فال نہ نکالی ہو۔
واقع بڑا ھو یا چھوٹا اس کا تعین تجزیہ کرنے والے پر بھی منحصر ہوتا ہے -زیادہ تر تجزیہ کرنے والے اپنے اندر برپا تلاطم کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔
زیادہ تر سیاستدان اور تجزیہ نگار جو ووٹ کو عزت دینے کی جدوجہد میں مصروف تھے، فورا کلٹی مار کر ووٹ کو عزت کی مخالفت میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کی منطق یہ ہے کہ یہ وہ والے ووٹ نہیں ہیں جن کی ہم بات کر رہے تھے۔ وہ تو ووٹ ہی علیحدہ ہیں اور دور سے نظر آجاتے ہیں۔
اب کم از کم ووٹ کی عزت والا نعرہ تھوڑی دیر کے لئے شاید موقوف ہو جائے۔ بلاول اور زرداری صاحب کی اچانک آمد اور میڈیا کے لوگوں سے ملاقات بے مقصد تو نہیں۔ یہ شاید وہی تالاب کی لہریں ہیں.
نون لیگ کی کوشش ہے کہ اگلے الیکشن کے وقت انہیں سیاسی میدان خالی ملے.
شوکت ترین کو سینیٹر بنا کر وزیر بنانے کی خبر عندیہ ہے کہ حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ اور نہ ہی فی الحال اپوزیشن یا پی ڈی ایم ان حالات میں حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ معیشت اور عالمی حالات دونوں حکومت کرنے والے نہیں ۔ اپوزیشن فی الحال صرف تالاب میں لہریں بنائے گی۔
لیکن بزنس as usual چلے گا اور پی ٹی آئی میرے اندازے کے مطابق اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔ ان حالات کا تقاضاہے کہ اب جب سیاسی حالات بہتری کا عندیہ دے رہے ہیں تو بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لئےتمام سیاسی قوتیں مل کر کردار ادا کریں اور پاکستان کی سالمیت اور عوام کی خوش حالی کے لئے بھی کچھ لہریں بنائیں۔