بلدیاتی نمائندوں کے لیے تعلیمی قابلیت کی شرط

مکرمی! حکومت نے آخر کار بادل نخواستہ پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کا عندیہ دے دیا ہے ۔ ویسے تو جب سے کپتانی حکومت اقتدار میں آئی ہے۔ اس وقت سے ہی بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کرتی رہی ہے مگر ہر بار کوئی نہ کوئی رکاوٹ آڑے آتی رہی۔ پھر اس پر ہی سالہاسال گزار دئیے کہ نظام کیسا ہونا چاہیے ۔بار بار نظام بنتا رہا۔ اس میں ردو بدل ہوتا رہا۔ اب کہیں جاکر ساڑھے تین سال بعد نظام فائنل ہوا ۔ مگر اچانک حکومت کی ایک اہم اتحادی جماعت نے تحفظات کا اظہار کردیا۔ پھر بڑے سر جوڑ کر بیٹھے ۔ اور ق لیگ کی خواہشات کے مطابق اس میں ردوبدل کیاگیا۔ جب وہ مطمئن ہوگئے۔ پھر اسے گورنر کے پاس دستخط کے لئے بھیج کر اسے حتمی شکل دی گئی۔ دراصل موجودہ حکومت کا جاری کردہ نظام سابق صدر ایوب خان مرحوم کا’’موری ممبر‘‘والا نظام ہے۔ اب اسے جدید دور میں ’’نیبر ہڈ اور ویلج کونسل کانام دے دیا گیا ہے۔ کیونکہ اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کا مقصد ہی یہ ہوتاہے ،کہ گلی محلوں کے مسائل منتخب شدہ ممبر اپنے طور پر حل کردیں اور جو گلی محلوں کے ڈویلپمنٹ کے کام بھی انہیں کے ذریعے کئے جائیں۔ مگر اس ’’مسودے‘‘میں جو تعلیمی شرائط مقر ر کی گئی ہے۔ وہ سراسرزیادتی اور نچلی سطح کے نظام میں زیادتی ہے ۔ موری ممبر اور چیئر مین کے لئے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مشروط کرنا درست نہیں۔ کیونکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبر اس شرط سے مستثنیٰ ہیں۔ جبکہ انہوں نے ’’قانون سازی بھی کرنا ہوتی ہے۔ اور ملک کی تقدیر کے فیصلے بھی انکے قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں۔ اس لئے بلدیاتی ایکٹ میں سے تعلیمی قد غن دور کی جائے یا اسے میٹرک تک محدود کر دیاجائے تاکہ خدمت کے جذبہ سے سرشار تمام افراد اسمیں حصہ لے سکیں۔(رخسانہ رحمن راؤ سابقہ لیڈی جنرل کونسلر ٹاؤن شپ لاہور)