پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئیبھارت میں پانی کی شدید قلّت؛ موسم گرما میں حالات مزید خراب ھونگےغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورغزہغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورامریکی کی ایران کے بیلسٹک میزائل، جوہری اور دفاعی پروگراموں کو سپورٹ کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس پر نئی پابندیاں عائد کر دی

آسان موبائل اکائونٹ – عام آدمی کی آزادی

ضرار سہگل

کچھ اپنے بارے میں، پیشہ ورانہ کامیابیاں اور اعزازات

مجھے ورلڈ اکنامک فورم (WEF) کی جانب سے ینگ گلوبل لیڈر (YGL) کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس وقت میں امریکن پاکستان فاؤنڈیشن کے بورڈ اور ایگزیکٹو کمیٹی میں خدمات انجام دے رہا ہوں۔ اس سے پہلے میں نے دی سٹیزنز فاؤنڈیشن یو ایس اے کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں، جو ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے اور غریب بچوں کے لیے اسکولوں کی تعمیر کا کام انجام دیتا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل کے طور پرمیں کلفورڈ چانس میں پارٹنر ہوں اور بینکنگ کا سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ اور لاجسٹکس کے عالمی ہیڈ کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہوں۔ میں نے بوسٹن یونیورسٹی سے بی اے اور جارج ٹاؤن لاء اسکول سے جیورس ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔

سوال: آپ کے خاندانی و کاروباری پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ بات کافی دلچسپ معلوم ہوتی ہے کہ آپ کے گروپ نے ڈیجیٹل مالی میدان میں قدم رکھا ہے جو کافی کٹھن اور مشکلات سے بھروپر ہے۔ براہ کرم تفصیل سے بتائیں کہ آپ کو کمپنی VRG  کا خیال کیسے اور کب آیا؟

جواب: VRG کا تصور میری سب سے چھوٹی بہن (نیفر سہگل) نے 2013 میں اس وقت دیا تھا جب اس نے والد محترم کے ساتھ ان مسائل پر گفتگو کی جن کا سامنا ہمارے ملازمین کو بینکنگ سروسز تک رسائی حاصل کرنے میں تھا۔ یہ مشکل خاص طور پرانہیں جدید بینکنگ نظام کے ذریعے اپنی تنخواہیں وصول کرنے اور پھر دیہی علاقوں میں اپنے خاندانوں کو منتقل کرنے میں پیش آتی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ اس مقصد کے لیے ہمارے 15,000 سے زیادہ ملازمین ایسی سروسز کا استعمال کرتے ہیں جو بینکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ سروس چارجز وصول کرتے تھے۔ اس صورتحال نے ہمیں یہ سوچنے کا موقع دیا کہ رقم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا عمل غریبوں کے لیے انتہائی مہنگا ہے۔

بینک اپنی شاخیں لوگوں کی آمدورفت اور فزیبلٹی کی بنیاد پر کھولتے ہیں، اس صورتحال میں ملک کی دور دراز 60 فی صد آبادی جو مالیاتی امور کے دائرہ کار سے باہر ہے، اسے ایک فرنچائز ماڈل کے ذریعے ریلیف فراہم کیا گیا۔ تاہم،ایجنٹ کے ذریعے چلائے جانے والے بینکنگ ماڈل نے کاروبار کی لاگت میں اضافہ کیا اور زیادہ سے زیادہ آمدنی اور کمیشن کے لیے اوور دی کاؤنٹر (OTC) لین دین پرتوجہ دی جبکہ ڈپازٹ لینے کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اس طرح کہ کسٹمر جزوی طور پر اپنی رقم نکلوا سکتا ہے اور باقی جمع کرا سکتا ہے۔ یہ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر وصول کرنے والوں کے لیے بھی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔

اس وقت ون ٹو ون ماڈل رائج تھا اور ہر Telco نے مائیکرو فنانس بینک کے ساتھ  مل کر یہ کام شروع کر رکھا تھا، ہم نے اسے ایک رکاوٹ جانا اس نے اس حقیقت اشارہ کیا کہUSSD (Unstructured Supplementary Service Data) ابتدائی طور پر ایجنٹوں کے لیے دستیاب تھا اور بعد میں اسے کسٹمرز کو منتقل کر دیا گیا۔ اس حوالے سے موبائل ایپس کوئی آپشن نہیں تھے اور اکاؤنٹ کھولنے کے عمل میں زیادہ تر صارفین کی ٹیلی کام کمپنی اثر انداز ہوتی تھیں ۔ Agent interoperability  کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایجنٹ پر کسی بھی بینک کے ساتھ سائن اپ کرنے کی کوئی پابندی نہیں۔ یہ ایسی اصطلاح ہے جو اپنے اصل مفہوم پر بھی پورا انہیں اترتی۔ ایجنٹ نے رقم کی منتقلی سروس کو زیادہ کمیشن کا حکم دیا ۔ ملک کی مالی شمولیت کے موجودہ اعدادوشمار عالمی بینک کے 2023 کے لیے مقرر کردہ اہداف سے بہت کم ہیں۔ اہداف کے مطابق پاکستان کی 50 فیصد بالغ آبادی اور 25 فیصد بالغ خواتین کو اس عمل میں شامل کیا جانا چاہیے۔

سوال: غریبوں تک مالی رسائی فراہم کرنے کا آپ کا وژن کافی مشکل کام ہے جس کے لیے سستی سروسز کی فراہمی کے ساتھ ساتھ عوام تک رسائی کی ضرورت ہے۔ آپ نے ان مشکلات اور رکاوٹوں پر کیسے قابو پایا اور کس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا؟

جواب: ہم نے جس سب سے بڑے مسئلے کی نشاندہی کی وہ رسائی کے لیے ایک مناسب چینل کی فراہمی تھی، جسے اس حقیقت کے مدنظر وسیع کیا گیا کہ ایسی آبادی جسے بینک کی سہولت نہیں، ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں انٹرنیٹ محدود ہے۔ یہی وہ  موقع تھا جب ہم نے PTA سے 4G  کے پبلک ٹرائلز کی اجازت حاصل کرنا چاہی تھی۔ ہم جانتے تھے کہ اس میں بھی ایک موقع ہے، لیکن ہم جس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کو ایک خاص سطح تک پہنچنے میں برسوں لگیں گے اور ہم اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ لہذا، VRG  کے قیام کے پہلے چند دنوں میں ہی ہم نے کلاک ورک میں بہت سے چیزوں کا اندازہ لگا لیا تھا۔ ہم نے ایک ٹیکنالوجی کمپنی کے طور پر VRG کی منصوبہ بندی کی ہے جو بینکنگ اور MFS (Mobile Financial Services)  کے ماہرین کے ذریعے چلائی جانے والی پیمنٹ سروس ہے جوبہترین تکنیکی ماہرین کے مرتب کردہ جدید ترین پلیٹ فارم کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو خدمات فراہم کر سکتی ہے۔

VRG کوئی ایسا کاروبار نہیں ہے جسے ہم نے محض اپنے فائدے کے لیے بنایا ہے، ہم نے اسے کمزور اور محروم لوگوں کی خدمت کے لیے بنایا ہے۔ ابتدائی دنوں میں ہم SaaS یعنی (Software-as-a-Service) پر مبنی MFS پلیٹ فارم پیش کرنا چاہتے تھے۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ بینک اپنی Branch Less بینکنگ سروس کا آغاز کریں جس میں CAPEX کم سے کم ہو اور وہ ادائیگیوں کے انٹرپلے پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ وہ گھریلو ترسیلات کے لیے Wallet یعنی پری پیڈ اکائونٹ جیس سہولت فراہم کرسکیں۔ 2013 میں جب ہم نے SBP  سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ فی الحال کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو ہمیں ریگولیٹری نگرانی میں رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اور خاص طور پر انڈسٹری کو تحفظ فراہم کرسکے۔ اس طرح، ہمیں PSO/PSP ادائیگی سروس آپریٹر/ادائیگی سروس فراہم کنندہ کے ضوابط کے لیے درخواست دینے کے لیے کہا گیا جن  کا اعلان سال 2014 کے اختتام پر کیا گیا۔

سوال: براہ کرم ملک کے مالیاتی شمولیت کے پروگرام اور ضوابط کی وضاحت کریں جن کے ذریعے ٹیلی کام آپریٹرز اور مالیاتی اداروں کو شامل کرکے VRG  کا انٹرآپریبل many to many  پلیٹ فارم قائم کیا گیا؟

جواب: قومی مالیاتی شمولیت کی حکمت عملی کے تحت اور ورلڈ بینک کی نگرانی کے ساتھ ساتھ SBP اور PTA نے 2017 میں تھرڈ پارٹی سروس پرووائیڈر (TPSP) کے لیے مشترکہ ضابطے جاری کیے تھے۔ TPSP وہ سروسز ہیں جن کا ہم نے پہلے سے تصور کیا تھا جس نے تمام ٹیلی کام اور تمام مائیکرو فنانس بینکوں / برانچ لیس بینکنگ پلیئرز کے ساتھ ایک حقیقی Many to Many مالیاتی خدمات کا دائرہ کار وسیع کیا ۔ SBP سے بطور PSO/PSP اجازت ملنے کے بعد ہم نے TPSP لائسنس کے لیے درخواست دی۔ ریگولیٹرز کی طرف سے دونوں لائسنسوں ملنے کے بعد ہمیں اپنی منفرد خدمات فراہم کرنے موقع ملا ہے۔

اس ضمن میںUSSD  ٹیکنالوجی کلیدی کردار رکھتی تھی، جسے Telecoms نے اپنے لیے محفوظ کر رکھا تھا۔ TPSP وہ مقام ہے جہاں دونوں ریگولیٹرز نے ایک تھرڈ پارٹی قائم کرنے کے لیے اشتراک کیا جو "Every Telco with Every Branchless Bank” کو باہم مربوط کرے گا تاکہ موبائل فنانشل سروسز کو جمہوری بنایا جائے اور اسے کراس آپریٹر مالیاتی خدمات کے لیے عام کردیا جائے۔

سوال: پچھلے نو سال کے دوران، VRG کو کون سے سب سے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور کیا اب وہ حل ہو چکے ہیں اور کیا اور آپ کے آگے بڑھنے کی رفتار کیسی ہے؟

جواب: ہمیں جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک تجارتی ماڈل کا قیام تھا جس نے دو مختلف صنعتوں بینک اور ٹیلی کام کو یکجا کیا۔. بینک ایک مقصد پر مبنی ہوتے ہیں، وہ صرف ایک بار سروس یا لین دین کے مکمل ہونے کے بعد ہی اپنی سروس کے پیسے وصول کرتے ہیں جبکہ ٹیلی کام اپنی سروس کے استعمال پر پیسے چارج کرتے ہیں۔ لہذا اگر شارٹ کوڈ ڈائل کیا جاتا ہے اور ٹیلی کام ماڈل کے مطابق لین دین نہیں ہوتا تو پھر بھی چارج کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ ٹیلی کام پرائسنگ ماڈل کو بینکوں میں لے جاتے ہیں، ہر بار بینکنگ ایپ کھولنے پر آپ سے چارج وصول کیا جائے گا۔

تاہم، انتھک کوششوں، کامیاب مذاکرات اور ہمارے ریگولیٹرز کے تعاون سے ایک ماڈل تیار کیا گیا جسے متفقہ طور پر انڈسٹری نے قبول کیا ہے۔

سوال: کیا چیز VRG کو دوسرے fintech players سے ممتاز کرتی ہے اور VRG کو ریگولیٹرز سے کیا تعاون حاصل ہوا ہے؟

جواب: نو سالوں کے دوران، ہم نے بہت سے معاملات کا آغاز کیا۔ ان میں سے بہت کم کامیاب ہوئے، باقی سب ناکام ہوئے۔ اس کی وجوہات میں بنیادی طور پر پیسے کا ختم ہوجانا، غلط مارکیٹ، کم تحقیق، خراب پارٹنرشپ، غیر موثر مارکیٹنگ اور انڈسٹری میں ماہر نہ ہونا ہے۔ ہم نے VRG کو عام آدمی کے لیے مالیاتی خدمات کے روایتی طریقے کو تبدیل کرنے کے وژن کے ساتھ شروع کیا جس کے لیے وقت، محنت اور مستقل مزاجی اور یقیناً سرمایہ کاری کی ضرورت بھی ہے۔

سوال: آپ کی سب سے بڑی خوبیاں کیا ہیں اور ان کو گروپ کے اندر یا نئے منصوبوں کے لیے کیسے ہم آہنگ کیا گیا ہے؟ کیا "مالی شمولیت” کے لیے VRG کا کاروباری معاملہ عالمی سطح پر ظاہر ہوا ہے کیونکہ اسے ایک اہم SDG سمجھا جاتا ہے؟

جواب: ہمارے پلیٹ فارم کے لیے قابل فخر یہ بات ہے کہ یہ پاکستان میں مقامی طور پر بنایا گیا ہے۔ یہ ہماری عظیم صلاحیتوں کا ثبوت ہے جو ہم اپنے ملک میں رکھتے ہیں اور ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ پاتھ فائنڈر گروپ کے اندر، ہم نے ایک فنانشل سروسز ٹیکنالوجی ڈویژن (FSTD) قائم کیا ہے اور ہم نے انہیں ایک ٹیکنالوجی کے مرکز کے طور پر منظم کیا ہے۔  FinTech، HealthTech  کے ساتھ ساتھ R&D اور تجربات میں ہماری تمام کوششیں iPath پر تیار کی جاتی ہیں۔ اور پھر ہمارے پاس VRG ہے جو اپنی ہی دوسری کمپنیوں کی طاقت میں اضافے کا سبب ہے۔

ہمارا پلیٹ فارم کو نیویارک میں UNDP کے ایڈمنسٹریٹر مسٹر اچم سٹینر کو پیش کیا گیا جس میںUNDP کے چیف ڈیجیٹل آفیسر رابرٹ اوپ نے روم سے ویڈیو لنک کے ذریعے شمولیت کی۔ ہم نے Office of H.M. Queen Máxima, سے بھی ملاقات کی۔ جو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی خصوصی وکیل (UNSGSA) برائے ” Inclusive Finance for Development ” ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم نے ڈیووس میں سالانہ اجلاس سے قبل 2022 کے روڈ میپ، اشتراک کے وعدوں اور اقدامات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے EDISON Alliance Champions Deputies & Executive Network میٹنگ کا انعقاد کیا۔ VRG کو Alliance کی طرف سے مدعو کیا گیا تھا اور ہم نے اس موقع پر آسان موبائل اکاؤنٹ (AMA سکیم) کے ذریعے اگلے 50 ملین پاکستانیوں کو مالیاتی دائرہ کار میں لانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔ ہم اس وقت بہت خوش اور فخر کرنے لگے جب WEF نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ پاکستان کو ایک لائٹ ہاؤس ملک بنانے پر غور کر رہا ہے تاکہ وہ ہمارے نجی عوامی شراکت داری کے کامیاب تجربے سے کچھ سیکھ سکیں۔

سوال: کیا اسٹیٹ بینک کے RAAST ادائیگی کے پلیٹ فارم پر اضافی خدمات کا آغاز VRG کے کاروباری ماڈل کو متاثر نہیں کرے گا یا یہ اس کی تکمیل کرے گا؟

جواب: RAAST پاکستان میں ادائیگیوں کا مستقبل ہے۔ دنیا میں اس معیار کے صرف چند ہی نظام ہیں جن سے اس کا موازنہ کیا جاسکے۔ یہ ادائیگی کے عمل کو بڑھاتا ہے۔ یہ بینکوں اور ادائیگی کی خدمات فراہم کرنے والوں کو جدید بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرے گا۔ انتہائی موثر ہونے کے باوجودRAAST  کو غریبوں کے لیے فائدہ مند سسٹم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ RAAST وے وہی صارفین مستفید ہوتے ہیں جو پہلے ہی مالی لحاظ سے اس میں شامل ہیں۔ لاگت کو کم کرنے یا مفت فنڈز کی منتقلی کی اجازت دینے سے کیش لائٹ اکانومی کی حوصلہ افزائی ہوگی لیکن آبادی کو بینکنگ کی طرف لانے میں صرف معمولی حد تک فائدہ ہوتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اس موقع پر RAAST اور AMA دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم RAAST کی خوبیوں کو AMA  پلیٹ فارم پر اس قابل بنا سکتے ہیں کہ عام آدمی ان تک رسائی حاصل کرسکے۔

سوال: جیسا کہ آپ نے وضاحت کی ہے کہ پاتھ فائنڈر گروپ نے ایف ایس ٹی ڈی قائم کیا ہے، آپ کون سے نئے وینچرز اور کاروباری یونٹس کو شامل کرنا چاہتے ہیں جو آپ کے موجودہ بزنس کو وسعت دے؟

جواب: ہمارا گروپ ہیلتھ ٹیک خاص طور پر امریکہ میں بھی سرگرم عمل ہے جہاں ہماری ٹیم ہیلتھ کیئر انٹرآپریبلٹی پر ایک مشکل چیلنج کو حل کر رہی ہے۔ ہم نے مائی میڈی پورٹ بنایا ہے جو کسی مریض کا جدید میڈیکل ریکارڈ یکجا کرنے کا پلیٹ فارم ہے۔ اس کے ذریعے مختلف نظاموں سے وصول ہونے والے میڈیکل ریکارڈز کو مربوط کیا جا سکے گا۔ اس طرح ہم نے معالجین کو درست تشخیص کے لیے مریض کی ہسٹری کا ایک مربوط نظریہ فراہم کیا ہے۔ پاکستان اور ترقی پذیر ممالک میں ہم اس حل کو نیشنل الیکٹرانک ہیلتھ ریکارڈ پلیٹ فارم کے طور پر تجویز کر رہے ہیں جہاں شہریوں کے میڈیکل ریکارڈ کو ہیلتھ کیئر ٹچ پوائنٹس پر مربوط کیا جاتا ہے اور قومی شناختی کارڈز سے منسلک کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں FSTD نے SMEs کو ترقی دینے کے لیے ڈیجیٹل اور مالیاتی ٹولز فراہم کر کے خریداری کے عمل کو ڈیجیٹل بنانے کے لیے ای کامرس میں بھی قدم رکھا ہے۔

سوال: آپ کی کیا توقعات ہیں؟ کیا AMA اسکیم اپنی تشہیر کے بعد لوگوں کی توجہ حاصل کر پائے گی؟ اس کے علاوہ AMA کی آج تک کی کارکردگی پر بھی کچھ روشنی ڈالیں؟

جواب: اگر آپ گزشتہ 18 مہینوں میں AMA کی کارکردگی کا جائزہ لیں، تو ممبر بینکوں کے ساتھ آزمائش کے طور پر ہم نے تقریباً 30 اکاؤنٹس کے ساتھ آغاز کیا۔ ہمارا یہی آغاز اس طرح مقبول ہوا کسی مارکیٹنگ یا پرنٹ میڈیا کے بغیر ہی ہمارے صارفین کی تعداد 4.3 ملین سے تجاوز کرچکی ہے اور دن بدن اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب تک ان میں  31% خواتین کے اکاؤنٹس ہیں۔ AMA عام آدمی کا پلیٹ فارم ہے۔ یہ ان کے لیے ادائیگیوں کا آلہ اور غریب کا ڈیبٹ کارڈ ہے۔

سوال: مالی شمولیت اور متعلقہ سماجی ترقی کے منصوبوں کے علاوہ، کون سے نئے منصوبے ہیں جنہیں VRG شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور کیا اس کا مقامی Fintech ایکو سسٹم پر اثر پڑے گا؟

جواب: cمالی شمولیت اور خواتین کو بااختیار بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم کچھ دلچسپ پروڈکٹس اور فیچرز پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں فوری کریڈٹ، مائیکرو اور نینو انشورنس، ریٹیل پیمنٹ اور سب سے اہم ایجنٹ انٹرآپریبلٹی شامل ہیں۔ ایجنٹ نیٹ ورک کے ذریعے انٹرآپریبل کیش ان اور کیش آؤٹ سروسز AMA اسکیم کے کسٹمر کے لیے کسی بھی ایجنٹ سے کسی بھی بینک کی مالیاتی خدمات تک رسائی کے مسائل کو حل کرتی ہیں۔ تمام G2P اسکیموں کوصارفین کے لیے فوری اور سستی طریقے سے خدمات پر ایجنٹ انٹرآپریبلٹی سروس کا فائدہ ملے گا۔

انٹرآپریبل ادائیگی کے لیے ہمارا یونیفائیڈ USSD پلیٹ فارم VRG کو پاکستان کا (Payment Initiation Service Provider – Open Banking)  بننے کا موقع فراہم کرتا ہے جو AMA کے صارفین کو بینک اکاؤنٹس استعمال کرنے کی آزادی دیتا ہے۔

VRG، PSO/PSP اور TPSP لائسنس رکھنے والی ایک منفرد کمپنی ہے، جن کے ذریعے USSD پلیٹ فارم AMA اسکیم کو آگے بڑھاتا ہے جس کے پہلے ہی 4.3 ملین اکاؤنٹس ہیں اور مستقبل میں اس تعداد میں مزید اضافے کی توقع ہے جس کے باعث VRG آج کل سب سے زیادہ اہمیت کی حامل کمپنی ہے اور اس کی قدرمیں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ VRG نے fintech (s) کے لیے ایک پلیٹ فارم قائم کیا ہے تاکہ وہ اپنی مصنوعات کی عوام تک رسائی کے لیے ایک چینل فراہم کر سکے جو VRG کو مالی شمولیت کے قابل بناتا ہے۔ ایک حالیہ مثال چینی کمپنی کی ہے جو کم لاگت کے لین دین کو ممکن بنانے کے لیے 100 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ VRG سروسز اور اس کی قدر و قیمت توقعات سے کہیں زیادہ ہے۔