پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئیبھارت میں پانی کی شدید قلّت؛ موسم گرما میں حالات مزید خراب ھونگےغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورغزہغزہ میں پھنسے دس لاکھ سے زائد لوگ سمندر کا نمکین پانی پینے پر مجبورامریکی کی ایران کے بیلسٹک میزائل، جوہری اور دفاعی پروگراموں کو سپورٹ کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس پر نئی پابندیاں عائد کر دی

کتاب کا جائزہ-

"پر اثر لوگوں کی سات عادات”
سٹیفن آر کوئوی
میں نے یہ کتاب۲۰۰۱ میں پڑھی اور تب سے اب تک کئی بار پڑھ چکا ھوں- سٹیفن آر کووی کی لکھی یہ کتاب بیسویں صدی کی دو اہم ترین کتابوں میں سے ایک ہے- کتاب ایک کہاوت سے شروع ھویت ھے کہ ” حقیقی کامیابی صرف سیدھے راستے پر چلنے سے ھی ملتی ھے” -مصنف نے اس کتاب میں اصولوں اور اخلاقیات کی سات عادتوں کو بیان کیا ہے، اخلاقیات کو وہ حقیقی طاقت سمجھتا ہے اور اس کے اثرات کو آفاقی اور لازوال خیال کرتا ہے۔ مصنف کا ماننا ہے کہ شخصیت کو عالمگیر اور لازوال بنانے میں سب سے اہم اور مؤثر طاقت اخلاق اور کردار ہے۔ مصنف اصولوں اور قوانین کو ظاہری طاقت سمجھتا ہے، جبکہ اخلاق و اقدار کو اندرونی طاقت کہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "در اصل ہمارے اقدار، ہمارے رویوں پر حکمرانی کرتے ہیں”۔
مصنف اس کتاب میں بار بار تکثیر اذہان اور ذہانت کی فراوانی کی اصطلاح استعمال کرتا جے- سٹیفن کووی کا ماننا ہے کہ دوسروں کے افکار و اذہان کے اشتراک کے ساتھ زیادہ کامیابیاں ملتی ہیں۔ اس کے بر عکس وہ انفرادی ذہن کو انتشار اور متصادم ماحول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔
پہلی تین عادتوں کا تعلق ذاتی اندرونی ترقی اور فتح سے ہے۔ دوسری تین عادتوں کا تعلق بیرونی فتح سے ہے۔

پہلی عادت کے بارے میں مصنف کہتا ھے کہ فعال بنیے: یعنی زندگی میں چیزیں شروع کرنے والے بنیں ناکہ صرف چیزوں پر ردعمل کرنے والے اور مثبت رویہ اپنائیں
دوسری عادت کے بارے میں مصنف کہتا ھے کہ نتیجہ کو ذہن میں رکھ کر کام کا آغاز کریں ۔ کام شروع کرتے وقت آپ کو اندازہ ھونا چاھیے کہ انجام کیا ھو گا- منشیات کے استعمال سے صحت تو نھی بنے گی- اسی طرح محنت کئے بغیر ترقی نا ممکن ھے-
کام کو اس کی اھمیت کے اعتبار سے انجام دیں – انتہائی اہم چیزیں پہلے کریں پھر اس کے بعد دوسرا اھم کام ، پھر اسی طرح آگے بڑھیں- جو غیر اھم کام ھے، اسے آخر پر انجام دیں – یہ تیسی عادت ھے جو کہ شخصیاتی تنظیم کا سبق دیتی ہے- چوتھی عادت ،مجھے ذاتی طور پر یہ سب سے بہتر لگتی ھے- یہ اقدار کے ذمرے میں آئے گی- جیو اور جینے دو- بدلہ مت لو- جہاں ممکن ھو خود بھی فائدہ اٹھاؤ اور دوسرے کو بھی اٹھانے دو۔ پانچویں عادت کے بارے میں مصنف کہتا ھے کہ
پہلے دوسروں کو سمجھیں پھر انھیں سمجھائیں: دوسروں کو سنے اور سمجھے بغیر آپ اپنی بات اور اپنا خیال موثر نہیں بنا سکتے، اسطرح بہت سی مشکلات اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور نقصاندہ ثابت ہوتا ہے۔
چھٹی عادت باقت کو مجتحد کرنے کے بارے میں ھے ۔ synergy- ارکان صحیح جذبے کے تحت اگر جمع ہوں تو ان کے اتحاد سے بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔ منتشر افراد سے اور انتشار پسند ذہنیت سے مؤثر نہیں بنا جا سکتا۔ اور ساتویں عادت ھے کہ اپنے آپ کا خیال رکھیں- آپ ھونگے تو باقی کچھ ھو گا ورنہ کچھ بھی نھی ھو گا-خود کو آری کی طرح تیز کریں: باقاعدگی کے ساتھ جسمانی، معاشرتی، روحانی اور ذہنی تجدید کریں۔