‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئی

قومی سلامتی کے تقاضے اور دفاعی اخراجات

کسی بھی ریاست کی سلامتی اور تحفظ کا سب سے بڑا اور اولین تقاضا سیاسی استحکام، قومی یکجہتی اور عوام کا فوج پر اعتماد ہوتا ہے۔ عالمی امور میں ریاست کے دفاع اور تحفظ کا معاملہ اہم ترین تصور کیا جاتا ہے اور اسی کو سب سے زیادہ زیر بحث بھی لایا جاتا ہے۔ قومی دفاع کو یقینی بنانا سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ کسی بھی ملک کی مسلح افواج اپنے عوام کی حمایت کے بغیر اس اہم ذمہ داری کو نبھا نہیں سکتیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہماری دفاعی ضروریات روایتی دستوں کی تعیناتی تک محدود نہیں بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں۔ گزشتہ تیس سال میں اس خطے میں دو بڑی جنگیں لڑی گئیں جن میں ایک روس۔ افغانستان جنگ جبکہ دوسری دہشت گردی کے خلاف جنگ شامل ہیں۔ ان دونوں میں ہماری بہادر فوج سرخرو ہوئی۔ دوسری طرف ازلی دشمن بھارت مسلسل پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ اب تو اس نے پاکستان کے خلاف ایک ورچوئل جنگ بھی چھیڑ دی ہے۔ اس سیکورٹی منظر نامے میں پاکستان کو لاحق خطرات کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں ان سے نمٹنے کے اقدامات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

دفاع اور سلامتی کے معاملات کبھی صرف فوج امور تک محدود تھے لیکن موجودہ دور میں یہ ایسا ممکن نہیں رہا۔ اب ان کا دائرہ پھیل کر ملٹری کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ماحولیاتی شعبوں تک وسیع ہو چکا ہے۔ یہ تصور واضح طور پر ریاست کے علاوہ ان مذکورہ شعبوں کی اہمیت کا احاطہ کرتا ہے اور اس میں اس کے متعقلہ افراد، سماجی گروہ حتی کہ عام انسان کے شامل ہونے کا بھی اشارہ کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ آج کے دور میں ریاست کا تحفظ اور سلامتی پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔

دفاعی اخراجات کے بارے میں کسی بھی بحث و مباحثے کی بنیاد موجودہ خطرات کے تناظر میں حقائق پر مبنی ہونی چاہیے۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ خطرے کی نوعیت اور اس کی شدت دفاعی اخراجات کا تعین کرتے ہیں۔ ہم اس وقت ہی دفاعی اخراجات کا صحیح اندازہ کرسکتے ہیں جب ہمارے پاس ہماری آمدن، ہماری ضروریات اور دستیاب وسائل کی مکمل تفصیلات موجود ہوں۔ اس کو طے کرنے کا فارمولہ بھی سیدھا سادہ ہے۔ کیا ہمارے ملک کی سلامتی کو کسی قسم کے خطرات لاحق ہیں؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو اگلا سوال یہ ابھرے گا کہ ان خطرات کی شدت کیا ہے، آیا ہم انہیں ٹال یا نظرانداز کرسکتے ہیں، ہمارے وسائل اور دفاعی ضروریات کتنی ہیں اور ہم اپنے دفاع کو قائم رکھنے کے لیے ان اخراجات کو کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟

ان تمام سوالات، حقائق اور ترجیحات کی روشنی میں ملکی تعمیر و ترقی، دفاع اور دیگر حکومتی امور چلانے کے لیے وسائل مختص کیے جاتے ہیں۔ تنخواہیں اور پنشن حکومتی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ ہیں۔ کاروبار اور زراعت میں ٹیکس اورآمدن میں چھوٹ ایک بہت بڑا نقصان ہے جس کی قیمت عام آدمی کو چکانی پڑتی ہے۔ کسی بھی ریاست اور اس کے عوام کی سلامتی کسی قسم کی اپنی مرضی کا معاملہ نہیں بلکہ ناگزیر تقاضا ہوتا ہے۔ البتہ اس حوالے سے وسائل کی تقسیم حقائق پر مبنی ہونی چاہیے۔

خطرہ کوئی مادی چیز نہیں جسے چھو کر ہم اس کی شدت اور اس کے حجم کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ دراصل کوئی بھی حکمت عملی ممکنہ خطرے کے قیاس یا مفروضے پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر اس حوالے سے مفروضوں کا گہرائی سے جائزہ نہ لیا جائے تو اس کا نتیجہ ناقص اسٹریٹجی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے جو بعض اوقات پوری ریاست کو ہی لے ڈوبتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے، اسے لاحق خطرات واضح ہیں اور ان کی شدت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مغربی محاذ اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی 20 سالہ طویل نے جو حالات پیدا کیے وہ خطرے کی موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس جنگ میں افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں سمیت 70 ہزار پاکستانی شہری اپنی جان قربان کر چکے ہیں جبکہ 128 بلین ڈالر کا مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان سے ہی اس کی سلامتی شدید خطرات سے دوچار رہی ہے۔ مشرق میں ازلی دشمن بھارت کے عزائم کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں۔ بھارت میں اس وقت شدت پسند بی جے پی چانکیہ کی مکارانہ پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے راج کررہی ہے۔ بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پربلااشتعال فائرنگ کے ذریعے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کررہی ہے۔ اسی طرح چند سال قبل ہماری فضائوں کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی جس میں اس کا جہاز تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ایک پائلٹ بھی گرفتار ہوا، گزشتہ دنوں ہماری سرزمین میں اس کا ایک براہموس میزائل بھی گرا، یہی نہیں بلکہ پاک بحریہ نے پاکستانی سمندری حدود میں اس کی ایک ایٹمی آبدوز کا بھی سراغ لگایا۔ یہ سب حالات و واقعات بھارت کے پاکستان کے خلاف ناپاک اور جارحانہ عزائم کا زندہ ثبوت ہیں۔

ہمیں اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت اس وقت دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس کا سب سے بڑا ہدف پاکستان ہے۔ اب تو بھارت اپنے ناپاک عزائم کا برملا اظہار کرنے سے بھی نہیں کتراتا۔ بھارتی وزیراعظم مودی، قومی سلامتی کے مشیر اجیت دیول اور وزیردفاع راج ناتھ متعدد مرتبہ پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ پاکستان کو کسی نہ کسی بہانے عدم تحفظ کا شکار کرنا اور اس کے خلاف شعلہ افشانی کرتے رہنا ہی بی جے پی کا سیاسی حربہ ہے کیونکہ وہ اسی کے ذریعے ہندو شدت پسندوں کا ووٹ بینک اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہے۔

بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ پاکستان کے خلاف تین جنگیں برپا کر چکا ہے اور اب ایک نئی مہم جوئی کے لیے اشتعال انگیزی پیدا کر رہا ہے۔ یہ سازشوں اور ریشہ دانیوں کے ذریعے پاکستان کو دولخت بھی کرچکا ہے۔ یہ پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر حملے کے لیے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی مالی معاونت بھی کررہا ہے۔ یہ غیرذمہ دار ایٹمی ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف ایک جھوٹی پراپیگنڈہ مہم بھی چلا چکا ہے۔ ان تمام حربوں کا مقصد دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے سفارتی مفادات حاصل کرنا تھا۔ اس کی جانب سے خطے میں بالادستی کی خواہش کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے خلاف اپنے ظاہری اور پوشیدہ عزائم کی تکمیل ہے۔ افغانستان مغرب میں ہمارا ہمسایہ ہے جس کی سلامتی اور دفاع کا براہ راست تعلق پاکستان کے سیکورٹی حالات سے جڑا ہے۔ اگر ہم اپنی شمالی اور جنوبی سرحدوں کو بھی فراموش کرتے ہیں تو ہم ایک طویل جغرافیائی سیاسی بحران کا شکار ہوسکتے ہیں۔ افواج پاکستان اپنی 889000 مربع میل پر پھیلی سرحدوں کی ہمہ وقت کڑی نگرانی کررہی ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارا دفاعی بجٹ ہمارے ازلی دشمن کے مقابلے میں پہلے ہی بہت کم ہے۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہمارے دفاعی اخراجات کسی آپشن کا معاملہ نہیں بلکہ ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم دوسری طرف ہماری معاشی ابتری بھی ایک حقیقت ہے جس نے ہم سب کو تذبذب میں مبتلا کردیا ہے۔ اس صورتحال میں ہم سلامتی اور دفاع جیسے امور سے کس طرح عہدہ برآ ہوں گے یہ سوال تمام محب وطن حلقوں کے لیے لمحہ فکریا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج انتہائی پیشہ ورانہ اور جذبہ ایثار و خدمت سے سرشار ہیں۔ اسی وصف کی وجہ سے وہ اسلحے اور گولہ بارود کی خریداری میں ہمیشہ کفایت شعاری کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے ہر خطرے کا مقابلہ جرات اور بہادری سے کیا ہے اور وطن کے لیے جانیں بھی قربان کی ہیں۔ بہرحال موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ وسائل کو وہی صرف کیا جائے جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ دفاع سمیت سب شعبوں میں کفایت شعاری کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اشرافیہ اور کاروباری شعبے کے لیے مراعات اور چھوٹ کو ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

موجودہ زمانے میں قومی قوت کسی بھی ملک کے دفاع میں سب سے بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ اس سلسلے میں قومی یکجہتی کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور خوبی کو صرف اور صرف سیاسی استحکام کے ذریعے ہی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے ریاست کی سلامتی اور تحفظ کو اندرونی استحکام اور مضبوطی کے ذریعے ممکن بنانا۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل قوم کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ ایک یکجان اور متحد قوم جس کا دل جذبہ حب الوطنی سے لبریز ہو، وطن کے دفاع کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اعدادوشمار اور جی ڈی پی کے گورکھ دھندے کو چھوڑیے اور صرف اسی جذبے کو دل میں بسائے اپنی مسلح افواج کی پشت پر کھڑے ہو جائیے، دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست نہ دے سکے گی۔ یقین کیجیے، افواج پاکستان میں دنیا کو حیران کردینے والی صلاحیتیں موجود ہیں۔ وہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دیتی رہیں گی بس انہیں ہدف تنقید نہ بنایا جائے۔ دفاع وطن کے ضمن میں یہی آپ کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔

یہاں دفاعی بجٹ کے حوالے سے ایک اور غلط فہمی کا ازالہ کرنا بھی ضروری ہے۔ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ قومی بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ افواج پاکستان کو ملتا ہے۔ یہ سراسر جھوٹ اور پراپیگنڈہ ہے۔ اس سال دفاعی بجٹ جی ڈی پی کے 2.6 فی صد سے کم کرکے 2.2 فی صد کردیا گیا ہے۔ اگر اس کا موازنہ مہنگائی کی شرح 11.3 فی صد سے کیا جائے تو یہ گزشتہ سال کی نسبت 56 بلین سے کم بنتا ہے۔ تاہم ہمیں ادراک ہے کہ اس وقت قوم کو معاشی دشواریوں کا سامنا ہے۔ یہ کمی افواج پاکستان پر اعتماد، بھروسے اور محبت کی صورت میں پوری کی جانی چاہیے۔ دشمن کے خلاف لڑنے والے ایک سپاہی، ایک ہوا باز اور ایک ملاح کو صرف اورصرف  قوم کے اعتماد اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اسلحے و گولہ بارود کی کمیابی کو اپنے جذبے اور پیشہ ورانہ مہارت سے پورا کرکے کسی بھی دشمن کو شکست دے سکتا ہے۔ قوم کا اعتماد اور بھروسہ افواج پاکستان کا اثاثہ ہے جس کے بغیر وہ دشمن کے خلاف برسرپیکار نہیں ہوسکتیں۔

You might also like