‏چین میں سیلاب‏Ubermenschپونے دوپاکستان میں ہر سال 10 لاکھ مکانات کی ضرورت ہےایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائیلوُں سے حملہ کر دیا ہےگوجرانوالہ- سیالکوٹ- وزیر آباد- گجرات اور لالہ موسی، بنا بنا اکنامک زونسیاچن کے محاز پر پاکستان کی فوجپاکستان کے شمالی علاقہ جاتمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےمعاشرےمعاشرے کی سوچ کو بدلنا ریاست کو ماڈرن بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہےاگر ہمّت ہو تو معزوری کوئی رکاوٹ نہیں ہوتیمیلہ 6 ستمبروہ لمحہ جب 7.4 شدت کے زلزلے نے تائیوان کو ہلا ڈالامہنگائی کی شرح ۲۰% پر آ گئی-اپنی صحت کا خیال رکھیں- سوشل میڈیا سے دور رہیںصدر ارگان کی پارٹی کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شکستافغان سرزمین دہشتگردوں کی محفوظ آماجگاہ ہے ؛ فنانشل ٹائمچولستان میں زمینوں کو آباد کرنے کا منصوبہسائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کی پاکستان میں سرمایہ کاریپیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے کا اضافہ –مائع پیٹرولیم گیس( ایل پی جی) کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 45 پیسے کمی کردی گئی

دھشت گردی کی نئی لہر

ڈاکٹر عتیق الرحمان

پاکستان نے دھشت گردی کے خلاف 9/11 کے بعد شروع ھونے والی جنگ میں بے انتہا کامیابیاں حاصل کی ھیں اور پوری دنیا اس کی معترف ھے۔ اس جنگ میں پاکستان نے بے انتہا جانی اور مالی نقصان بھی اٹھایا۔اس کامیابی کے نتائج امن امان اور معیشت کی بہتری کی صورت میں نظر آنا شروع ھی ھوئے تھے کہ کرونا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب جبکہ دو سال بعد کرونا کی لہر میں کمی آئی ھے تو دھشت گرد دوبارہ سر اٹھانا شروع ھو گئے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج واپس جا چکی ہیں اور افغانستان میں طالبان نے عبوری حکومت قائم کر رکھی ھے۔ داعش اور ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود اپنی پناہ گناھوں سے براہ راست اور پاک- ایران سرحد سے پاکستان میں مختلف کاروائیاں کر رھے ہیں- پاکستان نے ۲۲۰۰ کلومیٹر طویل مغربی سرحد پر باڑ لگا کر ملک کو بڑی حد تک محفوظ بنا لیا ھے۔ لیکن پاک- ایران سرحد پر ابھی کچھ کلومیٹر پر باڑ لگ رھی ھے۔ یھی وہ علاقہ ھے جس سے دھشت گرد اس وقت چھپ کر اندر آ کر کاروائیاں کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کاروائیوں میں مصروف دھشت گردوں کو بھارتی پشت پناھی حاصل ھے۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور امریکی انخلا سے بھارت کو براہ راست دھچکا لگا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں اور ارد گرد کے دوسرے ممالک میں دھشتگردی کی نمو کے لئے ایک بہت بڑا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ایک منظم پروپیگنڈا مہم پاکستان کیخلاف چلائی جا رہی تھی۔ بھارت ایک عرصے سے پورے خطے میں عدم توازن کیلئے کوشاں ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ممبر بننے کیلئے بھارت کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت امریکہ کے فرنٹ مین کا کردار کرتا رہا ہے اور پس پردہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیلئے بھارت نے یورپ اور امریکہ میں ایک وسیع جال بن رکھا ہے۔ پاکستان کیخلاف امریکہ میں Lobbying کیلئے بھی بھارت سب سے آگے ہے۔افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ کا خاتمہ بھی ہے اور خطے میں عدم استحکام کا طبل جنگ بھی۔ افغانستان وسائل کی عدم دستیابی کے بعد شدید بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے-

پاکستان میں حالیہ دنوں میں ھونے والی دھشت گردی کی کاروائیاں قابل تشویش ھیں۔ چند روز قبل وزیر داخلہ نے لاھور میں دھشت گردی کے واقعہ کی مزمت کرتے ھوئے کہا کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں دھشت گردی کو ھوا دینا چاھتی ھے اور اسی لئے حالیہ دنوں میں دھشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرھا ھے۔ بلوچستان میں بھی سیکورٹی فورسز کے خلاف سرحد پار سے دھشت گردی کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں-پاکستان میں ھونے والی دھشت گردی کی کاروائیوں کا افغانستان سے امریکی افواج کے بعد پیدا ھونے والی صورتحال سے گہرا تعلق ھے ۔ اور حالیہ کاروائیوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ھے۔

۲۶ جنوری ۲۰۲۲ کو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے سینیٹ میں بہت بامقصد تقریر کی ۔ان کی بات چیز کا لب لباب یہ تھا کہ دھشت گردی کے خلاف مکمل کامیابی کے لئے ھمیں ایک ایسے بیانیے کی ضرورت ھے جس میں کوئی سیاسی ابہام نہ ھو۔ دھشت گردوں کا اپنی مجرمانہ کاروائیوں کے لئے چنا گیا سیاسی جواز کوئی معنی نھی رکھتا۔ ریاست کی عمل داری کے لئے ھر قسم کی کاروائی کا حق صرف ریاست کا ھے ۔ ھمیں اگلے مورچوں پر لڑتے اپنی افواج کو ھر طرح سے، قانونی، اخلاقی، سیاسی اور عسکری لحاظ سے لیس کرنا ھو گا تاکہ وہ دھشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کر سکیں۔ سیاسی پشت پناھی اور سیاسی بیانیے کے بغیر کوئی جنگ نھی جیتی جا سکتی۔

قوم کے اس ابہام کی وجہ سے پاکستان پہلے ھی بہت نقصان اٹھا چکا ھے۔ دو دھائیوں تک جاری رھنے والی جنگ میں قوم اے پی ایس پشاور پر حملے سے پہلے تک مختلف بیانیوں میں بٹی ھوئی تھی۔ کوئی دھشت گردوں سے بات چیت سے مسئلے کو حل کرنا چاھتا تھا تو کسی کو یہ اعتراض تھا کہ یہ جنگ ھماری نھی ھے۔ ھر طرف ایک نیا بیانہ تھا۔پشاور اے پی ایس پر حملے نے قوم کی آنکھوں سے تھوڑی دیر کے لئے پردہ تو اٹھایا اور نیشنل ایکشن پلان بھی بنا، لیکن پھر سیاسی مفادات اور سیاسی کشمکش نے دھشت گردی کے خطرات اور جاری جنگ کو حسب معمول پشت ڈال دیا۔ اور دھشت گردی کی وجہ سے ھونے والے تمام نقصانات ھم بھول گئے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ ھو سکا اور ھم دوبارہ مقصد سے دور ھو گئے۔ انٹیلیجنس بیسڈ اپریشن تو جاری رھے لیکن نیشنل ایکشن پلان کے دوسرے بہت سے اھم پہلوؤں پر کام جاری نہ ھو سکا- پھر پناما لیکس، الیکشن کی گہما گہمی اور سیاسی رشہ کشی۔

یہ سیاسی کشمکش ھمیشہ سے ھماری ترجیح رھی ھے اور ھم اسی میں بلا مقصد مصروف رھنا پسند کرتے ہیں۔ اور یہ سیاسی عدم استحکام ھی تمام مسائل کی جڑ ھے۔ ایک جمہوری ملک کی ترقی اور اس کے تمام مسائل سیاسی استحکام سے جڑے ھوئے ھوتے ہیں ۔ سیاسی استحکام ھی ملکی ترقی اور قانون کی عمل داری کا منبہ ھوتا ھے۔ سیاسی استحکام ھی بیابنہ بناتا اور توڑتا ھے۔

کمزور معیشت، سیاسی عدم استحکام، کرونا کی نئی لہر، افغانستان میں سر اٹھاتا غیر معمولی انسانی بحران ، امریکہ اور چین کے درمیان جاری خاموش رسہ کشی ، بھارت اور ایران کے درمیان بڑھتے دفاعی، تجارتی اور سفارتی روابط اور دھشت گردی کی نئی لہر یقیننا پاکستان کے مسائل کو مزید پیچیدہ کرے گی نہ کہ آسان۔

دھشت گردی کوئی نظریہ نھی بلکہ ایک پیشہ ھے۔ دھشت گردی سے جڑے جرائم پیشہ افراد دھشت کو استعمال کر کے اپنے معاشی مقاصد حاصل کرتے ہیں۔

قوم کو یلجا ھو کر ایک سیاسی بیانیہ بنانا کر مسلح افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ھو کر دھشت گردوں کے خلاف لڑنا ھو گا نھی تو دھشت گرد پہلے کی طرح دوبارہ ھمارے بازاروں، عبادت گاھوں اور سکولوں تک پہنچ جائیں گے۔

You might also like